سکھ کسانوں کی حالات زندگی اور تحریک خالصتان

                                   سکھ کسانوں کی حالات زندگی اوتحریکٍ      

                                                       خالصتان

                                           مصنف:- عاٸشہ ارشاد  ملک         

For English reader


1699میں  سکھوں کے مذہبی رہنما گرو گوبندسنگھ نے سکھوں کے لئے خالصہ کے نام سے ایک علیحدہ ریاست کا تصور پیش کیا تھا۔ دو قومی نظریئے کے بعد  جب ہندئووں کے لئےبھارت اور مسلمانوں کے لئے 

الگ ریاست پاکستان کا نعرہ بلند ہوا تو  سکھ برادری نے  بھی اپنے لئےعلیحدہ وطن کا نعرہ بلند کیا اور اپنے لیے ایک الگ وطن کے حصول کے لیے جہدوجہد شروع کردی مگر اس وقت کی حکمرانوں نے طا قت کے 

ذریعے  سکھوں کی آزادی اور الگ ریاست کے لیے اٹھنے والی آوازوں کو دبا دیا گیا۔1940ء میں جب سکھوں کی آزادی کی تحریک عروج پر تھی اس وقت ہندوں کی لیڈر جوہر لعل نہرو نے خطرے کو بھانپتے ہوۓ

سکھوں سے وعدہ کیا کہ مسلمانوں کی طرح بھارت کی دوسری اقلیتوں کو بھی الگ ریاست اور آزادی دی جاۓ گی۔ وہ تحریک آزادی میں بھارت کا ساتھ دیں اسی وعدے کے بعد ہندو، مسلمانوں اور سکھوں نے مل کر 

آزادی  میں بھارت کا بھرپور ساتھ دیا اور انگریزوں سے ہندوستان کو آزاد کروایا۔ آزادی کے بعد نہرو اپنے کیے ہوۓ وعدوں سے مُکر گیا اس کے بعد سکھوں اور مسلمانوں  کے ساتھ بدترین سلوک روا رکھا گیا .

جس پر سکھ برادری آزادی حاصل کرنے کی جہدوجہد مزید تیز ہو گٸ۔14 اگست 1947ء کو مسلمانوں کے لیے الگ ریاست پاکستان وجود میں آیا ہندو رہمنا پاکستان کےوجود کے حق میں نہیں تھے مگر مسلمان رہنما

 محمد علی جناح اور مسلمانوں کی مسلسل کوششوں کے بعد بلا آخر پاکستان وجود میں آیا مسلمانوں کے الگ وطن کے بعد بھارت میں رہ جا نےوالے مسلمانوں ،سکھوں اور دوسری اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک ہونے 

لگا ہندووں کے مطابق ہندوستان صرف ہندو کے لیے ہے یہاں کسی اقلیت  کو رہنے کا حق نہیں یہ سب دیکھتے ہوۓ سکھوں کے علیحدگی پسند رہنما  کاپور سنگھ نے تحریک خالصتان شروع کی۔ بھارتی رہمناٶں کے

وعدوں کی خلاف اور سکھ کمیونٹی کے ساتھ ناانصافی کے بعد سکھوں میں بھارت کے لیے غصہ زیادہ ہوگیا۔ 1955ء میں پہلی بار سکھ گھروں سے باہر آگۓ اوربھارت کے اور آزادی کے حق میں مظاہرے شروع کر

 دیے بھارتی حکومت نے خطرے کو دیکھتے ہوۓ اور سکھوں کی آواز کو دبانے کے لیے مظاہرین پر  بدترین تشدد کیا گیا۔ اور سکھ مظاہرین پر آنسوگیس کا استعال کیا گیا۔ سکھ کسی بھی حال میں بھارت کے ساتھ 

رہنے کو راضی نہ تھے مگر بھارتی حکومت نے تشدد اور طاقت کے زریعے مظاہرین پر قابو پالیا مگر سکھوں کے دلوں سے آزادی کی جستجو نہ ختم کروا سکے۔ اسی طرح سال 1979 ء میں بھی سکھ آزادی لے 

لیے آواز اٹھاتے رہے۔ مگر سال 1980ء میں ایک بار  پھر مظاہرے شروع ہوگۓ ہزاروں سکھ آزادی کے لیے سڑکوں پر آگۓ اس بھارتی حکومت نے سکھوں کی آواز بند کرنے کے لیے سخت طاقت کا استمعال کیا

 اور تین ماہ میں تیس ہزار سے زیادہ سکھوں کو  گرفتار کیا گیا اور ہزاروں کو قتل اور لاپتہ کیا گیا جس کے سکھوں میں بھارت کے لیے مزید نفرت پیدا ہوٸی۔ شدید ظلم اور تشدد کے باوجود بھارتی حکومت سکھوں 

کی آواز کو نہ دبا سکی اور 1982ء میں ایشن گمیز کے دوران سکھوں نے دہلی میں مظاہرے کیۓ اور دنیا کو بھارت میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے آگاہ کیا۔  جس کے بعد بھارتی حکومت نے 

آپریشن کر کے سکھوں کےبہت سارے  رہنماوں سمیت بھارتی  وزیراعظم آندرہ گاندھی کو بھی قتل کر دیا گیا۔  یہ آپریشن 1984ء تک جاری رہا جس میں500 کے قریب سکھوں کو قتل کر دیا گیا۔

سمتبر 2020 میں سکھ کسانوں کا بھارتی حکومت  کی پالیسوں کے خلاف  مظاہرے شروع ہوۓ اور  ہزاروں کی تعداد میں سکھ سڑکوں پر نکل آۓ اور اپنے مطالبات حکومت کے سامنے رکھ دیے مگر

 بھارتی حکومت سکھوں کے مطالبات پورا کرنے کے  بجاۓ ان پر طاقت کا استمعال کرنے اور قتل کرنے کی دھمکیاں دے رہی ہے .کسان برادری نے حکومت کے ساتھ کٸ مزاکرات کٸ مگر بھارتی حکومت کوٸی

 مطالبہ ماننے کو تیار نہیں جس کے بعد سکھ کسانوں نے ہڑتال کردی اور حکومت کےخلاف مظاہرے شروع کر دہے ہزاروں سکھ دارلحکومت دہلی میں داخل ہو گے اور پرامن مظاہرے کر رہے مگر بھارتی حکومت 

ہمیشہ کی طرع سکھوں کے ساتھ ناانصافی کرتے ہوۓ انھیں طاقت کے زریعے ختم کرنا چاہتی ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

جوباٸیڈن کو اقتدار میں لانے کے مقاصد

پلوامہ حملے کی حقیقت