پولیسگردی
           مصنف :- عاٸشہ ملک





(یاد رہے میرے اس آرٹیکل کا مقصد ہرگز کسی بھی پیشے یا اس سے منسلک لوگوں 

کی تزلیل کرنا یا ان کی خدمات سے انکار کرنا نہیں ہے۔ پولیس کا پیشہ ایک قابل 

احترام اور انتہاٸی مقدس پیشہ ہے پولیس اہلکار اپنی جانوں کی پروا کیۓ بعیر عوام 

کی خفاظت کرتے ہیں اور جراٸم کے خلاف لڑتے ہوۓ اپنی جانیں بھی دے چکے 

ہیں۔ یہاں صرف ان لوگوں کے بارے بات کی جارہی جو پولیس کی وردی میں چھپے 

چور جو نہ صرف ملک کے دشمن بلکہ عوام کو جانی اور مالی بھی پہنچا رہے ہیں۔ 

اور پولیس کے مقصد پیشے کو بدنام کر کہ اس پیشے سے عوام کا اعتماد ختم کر

 رہے ہیں۔) 

پولیس کسی بھی ملک کا ایک قابل اعتماد ادارہ ہوتا ہے۔عوام پولیس کو اپنا مخافظ سمجھتی ہے اور انھیں اپنے 


تخفظ کی ضمانت مانتی ہے۔ کوٸی بھی ادارہ اور اس میں کام کرنے والے سارے لوگ غلط اور بُرے نہیں 

ہوتے مگر ان میں چھپی کچھ کالی بھیڑیں جو اس ادارے کی بدنامی کاباعث بنتی ہیں۔ پولیس اہلکار اپنی جانوں پر

 کھیل کر عوام کے جان ومال کی حفاظت کرتے اور انھیں تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ مگر پولیس کےکچھ نااہل

 اہلکار بھی ہیں جو عوام کی حفاظت کرنے کے بجاۓ بے گناہ معصوم لوگوں کو بلاوجہ دن دھاڑے قتل کر دیتے 

ہیں اور ان سے کوٸی پوچھتا بھی نہیں ہمارہ قانون اندھا ہو چکا ہے ہم اس معاشرے میں رہتے ہیں جہاں 

ہمارے محافظ ہی ہمارے جان ومال دشمن بن چکے ہیں۔ ہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ انصاف صرف طاقتور 

کے لیے اور کمزور کو مار کاٹ کر کچل کر پھینک دو کبھی کوٸی آواز نہیں اُٹھاۓ گا اور اگر کوٸی انصاف

مانگے گا تو اسے بھی کچل دیا جاۓ گا .ایسا ہی ایک واقعہ اسلام آباد میں پیش آیا۔

اُسامہ ندیم ستی 22 سال کا نوجوان جو یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ فارغ وقت میں اوبر   (Uber)

بھی چلاتا تھا۔ وہ رات میں اپنے دوست کو گھر چھوڑ کر کشمیر ہاٸی وے سے اسلام آباد G-10 

شاہرہ کی طرف جارہا تھا۔ جہاں CDT اہلکاروں  نے اس پر فاٸرنگ کی اور اس پر تقریباً باٸیس گو لیاں چلاٸی 

اور اس کو قتل کر دیا گیا۔ CDT اہلکاروں نے اپنی واردات کو چھپانے کے لیے اس پر الزام لگا دیا کہ اس

 نے ہم پر فاٸرنگ کی اور مارنے کی کوشش کی ۔ مگر اس نوجوان کی گاڑی سے کوٸی بھی کسی قسم کا اسلحہ 

برآمد نہ ہوا۔ پولیس کی ابتداٸی تفتیش کے مطابق وہ نوجوان بے قصور تھا اور CDT اہلکاروں نے 

صرف شک کی بنا پر اس نوجوان کو قتل کر دیا گیا ۔اور بعد میں معاملے کو چھپانے کے اسامہ کو ڈکیت اور دہشت

گرد ثابت کرنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے اسامہ کا پوسٹ مارٹم پمز ہسپتال میں ہوا۔

ابتداٸی رپورٹ کے مطابق اسامہ کو چار گولیاں سامنے سے ماری گٸ۔ مگر اطلاعات موصول ہوٸی کہ  ڈاکٹرز نے شام میں پوسٹ مارٹم 

رپورٹ بدل دی جس کے مطابق اسامہ کو چار گولیاں پیچھے سے ماری گٸ۔رپورٹ بدلنے کی وجہ پولیس کا 

پریشر بھی بھی ہو سکتا۔ اسامہ کی والدہ کے مطابق کچھ روز قبل اسامہ کی پولیس اہلکاروں کے جھگڑا بھی ہوا 

تھا اسامہ کی والدہ کے مطابق پولیس اہلکار اسامہ کو بار بار بلا وجہ روکتے تھے جس پر اسامہ کا 

جھگڑا ہوا جس پر پولیس اہلکاروں نے اس کو دھمکی دی کے ہم تمیں دیکھ لیں گۓ۔ جہاں تک کہا جارہا کہ شک 

کی بنا پر اس کو مارا گیا ہوسکتا یہ شک نہ ہو سازش بھی ہوسکتی۔کیونکہ CDT اہلکاروں کو تربیت 

دی جاتی اگر پہ شک تو اس کو روکنے کی کوشش کرو نہ رُکنے کی گاڑی کے ٹاٸر پر فاٸرنگ کریں اور اس کو

 گرفتار کریں مگر یہ یہاں ایسا لگ رہا کہ اس کو جان بوجھ کر مارا گیا۔ لیکن اس بعد کا کوٸی ثبوت نہیں 

اس لیے الزام نہیں لگا سکتے اس بات کا مگر عوام کے خدشات ہیں یہ۔ ایسا ہی واقعہ 

لاہور موٹر وے خاتون کے ساتھ پیش آیا جب اس نے پٹرول ختم ہونے کی صورت 
پولیس کو مدد کے کال کی پولیس تو نہ آٸی مگر 

ڈکیت ضرور آگے ۔سوال یہ ہے کے پولیس کو کال کی تو پولیس کیوں واردات کے بعد اور ڈکیت کیسے پہلے پہنچ 

گے کیا ان کو علم ہو گیا تھا کہ ایک عورت موجود ہے وہاں۔ اس سے پہلے بھی ایسے کٸ واقعات 

ہوۓ جس سے پولیس کی نااہلی ثابت ہوٸی . جیسا کہ ساٸیوال کا واقعہ جس میں پولیس نے دہشتگردی کے شک 

میں ایک گاڑی پر فاٸرنگ کی اور چھوٹے چھوٹے بچوں کو یتیم کر دیا ان کے والدین کو صرف شک پر 

قتل کر دیا گیا۔اگر اس وقت انصاف ہوتا اور مجرموں کو سخت سزا دی جاتی تو آج دوبارہ اسلام آباد والا واقعہ

 پیش نہ آتا پولیس یوں بے گناہ لوگوں کو قتل کرتی پھرتی اور چور، ڈکیت اور دہشت گرد ان کے پاس سے 

گزر کر نکل جاتے اور پولیس والوں کو خبر تک نہ ہوتی اپنی نااہلی کو چھپانے کے معصوم عوام کا قتل عام کیا 

جارہا ۔ ہمارہ معاشرہ کس طرف جارہا ہمیں چور ، ڈاکو اور دہشت گردوں سے اتنا خطرہ نہیں جتنا پولیس 

سے پولیس ہمارے مخافظ بن کر ہم پر وار کررہی ہے۔ عوام کے دیۓ ہوۓ ٹیکس سے تنحواہیں لینے والی پولیس

 عوام کے جان و مال کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ ایسے کٸ واقعات روز رونما ہوتےہیں۔  کیونکہ جرم 

کرنے والا اور قاتل پولیس کا اہلکار ہے اس لیے اس کو معاف ہے ہر جرم اس کو سزا ملنے کا تصور بھی کرنا 

ہے۔ سزا صرف کمزور کو ملتی طاقتور کو تو اجازت ہے کھلی آذادی ہے جب دل کرے جس

 کو قتل کرے جرم کرے اور آزاد گھومے اس کی نظر میں انسان کی قیمت ایک چونٹی کے برابر ہے۔ آخر میں اس

 بات کی اپیل کی جاتی ہے کہ اسامہ کے خاندان کے ساتھ انصاف کیا جاۓ اس کے قاتلوں کو سخت سےسخت سزا 

دی تاکہ دوبارہ ایسا ظلم نہ ہو۔


 کومنٹ بوکس میں اپنی راۓ کا اظہار لازمی کریں شکریہ۔

Comments

Popular posts from this blog

سکھ کسانوں کی حالات زندگی اور تحریک خالصتان

جوباٸیڈن کو اقتدار میں لانے کے مقاصد

پلوامہ حملے کی حقیقت